مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے امریکی ٹی وی چینل سی این این کی نامہ نگار کریسٹن امانپور کےسوالات کا جواب دیتے ہوئےکہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے مشترکہ ایٹمی معاہدے میں اپنی صداقت و حسن ظن اور امریکہ کے مکر و فریب اور جھوٹ کو ثابت کیا ہے فریق مقابل کی طرف سے مشترکہ ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں ایران صرف چند دنوں میں پہلے والی پوزیشن میں پلٹ سکتا ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی نےامریکی صحافی کی جانب سے مشترکہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے خارج ہونے پر مبنی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مشترکہ ایٹمی معاہدہ صرف ایران اور امریکہ کے درمیان نہیں بلکہ یہ معاہدہ بین الاقوامی معاہدہ ہے جس میں جرمنی سمیت سکیورٹی کونسل کے تمام مستقل رکن ممالک شامل ہیں۔ مشترکہ ایٹمی معاہدے پر عمل فریقین کی ذمہ داری ہے ایران نے اپنی ذمہ داریوں پر عمل درآمد کردیا ہےاب گروپ 1+5 کے رکن ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عہد پر عمل کریں۔ اگر امریکہ مشترکہ ایٹمی معاہدے سے خارج ہوجاتا ہے تو اسے کوئي فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ عالمی برادری کا اس پر اعتماد ختم ہوجائے گا لہذا مشترکہ ایٹمی معاہدے سے نکلنا امریکہ کی بدنامی کا باعث اور دنیا میں اس کے جھوٹ اور مکر و فریب کو مزید نمایاں کرےگا۔
صدر حسن روحانی نے کہا کہ ایران مشترکہ ایٹمی معاہدے کی روشنی میں ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا اور جو صورتحال اس وقت شمالی کوریا میں جاری ہے اس کی اصل وجہ بھی کسی معاہدے کا نہ ہونا ہے البتہ امریکہ نے شمالی کوریا کے ساتھ کچھ وعدہ کیا تھا جسے امریکہ نے پورا نہیں کیا اگر امریکہ شمالی کوریا کے سلسلے میں کئے گئے دوطرفہ عہد پر عمل کرتا تو شمالی کوریا ایٹمی ہتھیاروں کی طرف قدم نہ بڑھتا لیکن امریکہ نے شمالی کوریا کے ساتھ بھی دغہ اور غداری کی جس کے بعد شمالی کوریا بھی ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہوگیا۔
صدر حسن روحانی نے شام کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ شام واحد عرب ملک تھا جس نے صدام معدوم کی طرف سے ایران پر مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ میں ایران کا ساتھ دیا اور جب ایران نے دیکھا کہ امریکہ اور اسرائیل دہشت گردوں کے ذریعہ شام کی حکومت کو گرانا چاہتے ہیں تو ایران نے شام کا ساتھ دیا اور ایران نے شام پر دہشت گردوں کی حکومت قائم نہ ہونے کے سلسلے میں تلاش و کوشش کی اور ایران کی اس کوشش کو اس وقت دنیا میں مثبت نگاہ سے دیکھا جارہا ہے دہشت گردی کے خلاف ایران ہر ملک کی حمایت کرنے کے لئے تیار ہے کیونکہ ایران خود دہشت گردی کا شکار رہ چکا ہے۔ایران شام کے بحران کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کا خواہاں ہے ۔
صدر حسن روحانی نے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والےمظالم کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میانمار میں پہلے بھی مسلمانوں کے خلاف ظلم و تشدد ہوتا رہا ہے لیکن اس بار میانمار کی حکومت نے مسلمانوں کی نسل کشی کا عزم کررکھا ہے جو ناقابل قبول ہے میانمار میں انسانی حقوق کی کھلی اور صریح خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔ اگرمیانمار میں مسلمانوں کے خلاف جاری بھیانک اور سنگین جرائم اور ظلم و ستم کو نہ روکا گیا ہے تو پھر دنیا بھر میں اقلیتوں کا جینا حرام اور دشوار ہوجائے گا لہذا ععالمی برادری کو میانمار کی حکومت کو واضح پیغام دینا چاہیے اور میانمار میں مسمانوں کی نسل کشی کو رکوانے اور میانمار سے بے گھر ہونے والے مسلمانوں کو اپنے وطن میں آباد کرنے کے سلسلے عالمی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں کو اپنی ذمہ داری پر عمل کرنا چاہیے ایران بھی اس سلسلے میں بھر پور تعاون کرنے کے لئے تیار ہے۔ ایرانی صدر نے کہا کہ ہم میانمار کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور ہم انھیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
آپ کا تبصرہ